لڑکیوں کے ہاتھوں ایک آدمی کا اغوا اور اجتماعی زیادتی

 لڑکیوں کے ہاتھوں ایک آدمی کا اغوا اور اجتماعی زیادتی

پنجاب کے جالندھر میں حال ہی میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نشے میں دھت چار لڑکیوں نے ایک آدمی کا اغوا کیا اور رات بھر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ یہ واقعہ نہ صرف معاشرتی تحفظ پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے بلکہ صنفی جرائم کے ایک نئے پہلو کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

یہ واقعہ ایک فیکٹری میں کام کرنے والے شخص کے ساتھ پیش آیا۔ کام سے واپس آتے وقت اس کا راستہ ایک گاڑی نے روکا جس میں چار لڑکیاں تھیں۔ انہوں نے اس سے کسی جگہ کا پتہ پوچھا، اور جب وہ انہیں راستہ بتا رہا تھا، تو انہوں نے اس کی آنکھوں میں اسپرے کر دیا، جس سے وہ کچھ دیکھ نہیں پایا۔ اس کے بعد انہوں نے اسے گاڑی میں گھسیٹ کر اغوا کر لیا۔

اس شخص نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ تمام لڑکیوں کی عمر 20 سے 30 سال کے درمیان تھی۔ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، لیکن لڑکیوں نے اس کا مذاق اڑایا۔

لڑکیوں نے ہنستے ہوئے کہا، "یہ تو اور بھی اچھا ہے، تم تو تجربہ کار ہو، اور بھی مزہ آئے گا۔"

پھر انہوں نے اسے زبردستی شراب پلائی۔ اس کے بعد، ان لڑکیوں نے رات بھر باری باری اس کے ساتھ زیادتی کی۔ اس واقعے نے اور بھی حیران کیا جب اس نے دیکھا کہ گھر بہت بڑا تھا، اور گھر کا گیٹ ریموٹ کنٹرول سے کھلتا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ لڑکیاں امیر گھرانے سے تھیں۔

جب وہ شخص کسی طرح لڑکیوں کے چنگل سے بچ کر پولیس تک پہنچا، تو پولیس بھی اس کی کہانی سن کر حیران رہ گئی۔ اس واقعے نے معاشرے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اب خواتین بھی ان جرائم میں ملوث ہو رہی ہیں جن کا نام پہلے صرف مردوں کے ساتھ جڑا ہوتا تھا۔

یہ واقعہ ایک سنگین وارننگ ہے کہ معاشرے میں مجرموں کا کوئی خاص جنس نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ چاہے مجرم عورت ہو یا مرد، اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں اپنی حفاظت کے بارے میں مزید محتاط رہنا ہوگا، چاہے ہم کسی بھی جنس کے ہوں۔

Previous
Next Post »

Pages