حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا کیسی تھی؟
یہ ایک دلچسپ اور حیرت انگیز سوال ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا کیسی تھی؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اور احادیث کے ذریعے ہمیں اس دنیا کی کچھ جھلکیاں دکھائی ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے تھی۔ آج ہم ایک مکمل کہانی کے ذریعے اس راز کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
آغازِ کائنات:
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو اپنی قدرت سے تخلیق کیا۔ سب سے پہلے اللہ نے زمین و آسمان، ستارے، چاند، سورج، اور مختلف سیارے بنائے۔ اس وقت دنیا میں کوئی انسان یا جاندار نہیں تھا۔ ہر طرف خاموشی اور سکون تھا۔ زمین پر درخت، پہاڑ، دریا، سمندر، اور پھول موجود تھے، لیکن انسان کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ سب بے جان معلوم ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین پر کچھ ایسی مخلوقات کو آباد کیا جو انسان سے پہلے وجود میں آئیں، جن میں سب سے اہم جنات تھے۔ جنات کو اللہ نے آگ سے پیدا کیا اور انہیں زمین پر بسنے کا حکم دیا۔
جنات کا زمانہ:
جنات ایک ایسی مخلوق تھی جنہیں عقل اور اختیار دیا گیا تھا، جیسے انسانوں کو دیا گیا ہے۔ انہیں اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا، اور زمین پر رہنے کی اجازت دی گئی۔ جنات کی عمر انسانوں کے مقابلے میں بہت طویل ہوتی ہے اور ان میں بہت سے قوتیں بھی ہوتی ہیں، جیسے تیز رفتار حرکت کرنا، شکل بدل لینا، اور دور دراز مقامات تک سفر کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے جنات کو زمین کا پہلا خلیفہ بنایا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنات اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو گئے۔ ان میں تکبر اور غرور بڑھنے لگا۔ وہ آپس میں جھگڑنے لگے اور زمین پر فساد پھیلانے لگے۔ جنات میں ایک بہت ہی طاقتور اور عبادت گزار مخلوق تھی جس کا نام ابلیس تھا۔
ابلیس کی عبادت اور تکبر:
ابلیس جنات میں سے تھا، لیکن اپنی عبادت اور علم کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو گیا تھا۔ وہ فرشتوں کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں موجود ہوتا اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتا۔ لیکن ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر پیدا ہونے لگا۔ وہ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگا۔
جب جنات کا فساد حد سے بڑھا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ زمین پر جا کر جنات کو سزا دیں اور انہیں زمین کے دور دراز علاقوں میں قید کر دیں۔ فرشتوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی اور جنات کو زیر کر لیا۔ ابلیس اس وقت بھی فرشتوں کے ساتھ تھا اور اس نے اس معرکے میں حصہ لیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو زمین کی خلافت سنبھالے گی۔
انسان کی تخلیق کا ارادہ:
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جمع کیا اور فرمایا:
"میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔"
یہ سن کر فرشتوں نے عرض کیا:
"یا اللہ! کیا آپ ایسی مخلوق کو پیدا کریں گے جو زمین میں فساد کرے گی اور خون بہائے گی؟"
کیونکہ فرشتے جنات کے فساد سے واقف تھے، اس لیے وہ یہ سوچنے لگے کہ نئی مخلوق بھی شاید ویسا ہی کرے گی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"جو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔"
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم ہر چیز پر حاوی ہے، اور اللہ جانتا تھا کہ اس نئی مخلوق میں ایک خاصیت ہوگی جو دوسری مخلوقات میں نہیں تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق:
اللہ تعالیٰ نے مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ ان کا جسم انتہائی خوبصورت اور بہترین بنایا گیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق مکمل ہوئی تو اللہ نے اپنی روح ان میں پھونکی، اور حضرت آدم علیہ السلام میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ یوں حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان اور نبی بنے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم و حکمت عطا کی اور انہیں تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ یہ علم حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت کا ایک بڑا ثبوت تھا، کیونکہ فرشتے بھی ان چیزوں کے نام نہ جانتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے حضرت آدم علیہ السلام کو پیش کیا اور فرمایا کہ ان کے سامنے سجدہ کرو۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت کو ظاہر کرتا تھا۔
"سب فرشتے فوراً سجدے میں گر گئے، لیکن ابلیس نے انکار کیا۔"
ابلیس کا انکار اور لعنت:
جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے غرور میں آ کر کہا:
"میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے۔ میں اس سے بہتر ہوں، میں اسے سجدہ کیوں کروں؟"
اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے اس تکبر کو ناپسند فرمایا اور اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت مانگی تاکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بہکائے اور گمراہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مہلت دی، لیکن یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ ایمان اور تقویٰ کا راستہ اپنائیں گے، ابلیس ان پر کوئی اختیار نہیں رکھے گا۔
حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام:
حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں بسایا گیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا کیا تاکہ وہ ان کے ساتھ زندگی گزاریں۔ حضرت حوا علیہا السلام حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کی گئیں اور جنت میں ان کے ساتھ رہنے لگیں۔
اللہ تعالیٰ نے جنت میں انہیں تمام نعمتوں سے نوازا، لیکن ایک درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا۔ لیکن ابلیس، جو جنت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا، نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو بہکایا اور وہ اس درخت کا پھل کھا بیٹھے۔ اس نافرمانی کی وجہ سے انہیں جنت سے زمین پر بھیج دیا گیا۔
زمین پر زندگی کا آغاز:
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام زمین پر اترے اور ان کی اولاد سے دنیا بھر میں انسانیت پھیلی۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے نبی تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف احکامات نازل کیے تاکہ انسانیت کو صحیح راستے پر چلایا جا سکے۔
خاتمہ:
یہ کہانی ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے دنیا میں جنات کی حکمرانی تھی، لیکن ان کے تکبر اور فساد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کا خلیفہ بنایا۔ یہ بھی ہمیں سکھاتی ہے کہ تکبر اور غرور اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ صفات ہیں، اور جو مخلوق عاجزی اور انکساری اختیار کرتی ہے، اللہ اسے بلند درجات عطا فرماتا ہے۔
یہ کہانی ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی عظمت، ابلیس کی گمراہی، اور انسان کی زمینی زندگی کے آغاز کے بارے میں ایک گہری بصیرت فراہم کرتی ہے۔
ConversionConversion EmoticonEmoticon