دجال کا حلیہ اور فتنہ

دجال کا  حلیہ اور فتنہ 

 دجال کا حلیہ 
بائیں آنکھ کا کانا ہوگا اسکے جسم پر بال بہت گھنے ہونگے اور دونوں پیر ٹیڑھے ہونگے اور سر کے بال گھنگھرالو ہونگے   
حضرت حزیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال بائیں آنکھ کا اندھا ہوگا اسکے جسم پر خوب گھنے بال ہونگے اور دجال کے ساتھ اسکی جنت اور دوزخ ہوگی لیکن حقیقت میں جو اسکا  جنت ہوگا وہ دوزخ  ہوگی اورجو  دوزخ نظر آئیگا حقیقت میں وہ جنت ہوگا( جسکو وہ دوزخ عطا کریگا  حقیقت میں وہ جنتی ہوگا لیکن جسے جنت عطا کریگا حقیقت میں وہ دوزخی ہوگا ) مسلم شریف

دجال کا فتنہ 

 حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا کہ اس کے ظہور سے پہلے تین قحط پڑیں گے ایک سال آسمان کی ایک تہائی بارش رک جائے گی اور زمین کی پیداواربھی ایک تہائی کم ہو جائے گی دوسرے سال آسمان کی دو حصے بارش رک جائے گی اور زمین کی پیداوار دوحصے کم ہو جائے گی اور تیسرے سال آسمان سے بارش بالکل نہ برسے گی اور زمین کی پیداوار بھی کچھ نہ ہو گی حتیٰ کہ جتنے حیوانات ہیں خواہ وہ گھر  والے ہوں یاڈاڑھ سے کھانے والے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اس کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ ایک گنوار آدمی کے پاس آ کر کہے گا اگر میں تیرے اونٹ زندہ کر دوں تو کیا اس کے بعد بھی تجھ کو یہ یقین نہ آئے گا کہ میںتیرارب ہوں ؟وہ کہے گا ضرور ، اس کے بعد شیطان اسی کے اونٹ کی سی شکل بن کر اس کے سامنے آئے گا جیسے اچھے تھن اور بڑے کوہان والے اونٹ ہوا کرتے ہیں اسی طرح ایک اور شخص کے پاس آئے گا جس کا باپ اور سگا بھائی مر  چکا ہو گا اور اس سے آ کر کہے گا بتلا اگر میں تیرے باپ بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا پھر بھی یہ یقین نہ آئے گا کہ میں تیرا رب ہوں وہ کہے گا کیوں نہیں ؟بس اس کے بعد شیطان اس کے باپ بھائی کی صورت بن کر آ جائے گا ۔حضر ت اسماءکہتی ہیں کہ یہ بیان فرما کر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ضرورت سے باہر تشریف لے گئے اسکے بعد لوٹ کر دیکھا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان کے بعد سے بڑے فکر و غم میں پڑے ہوئے تھے ۔اسماءکہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کے دونوں کواڑ پکڑ کر فرمایا اسماء کہو کیا حال ہے ؟میں نے عر ض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دجال کا ذکر سن کر ہمارے دل تو سینے سے نکلے پڑتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں اس سے نمٹ لوں گا ورنہ میرے بعد پھر ہر مومن کا نگہبان میرارب ہے میں نے عرض کی یارسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ہمارا حال جب آج یہ ہے کہ ہم آٹا گوندھنا چاہتے ہیں مگر غم کے مارے اس کو اچھی طرح گو ندھ بھی نہیں سکتے چہ جائے کہ روٹی پکا سکیں بھوکے ہی رہتے ہیں تو بھلا اس دن مومنوں کا حال کیا ہو گا جب یہ فتنہ آنکھوں کے سامنے آ جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس دن ان کو وہ غذا کافی ہو گی جو آسمان کے فرشتوں کی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس۔(احمد

Previous
Next Post »

Pages