Hazrat Musa AS aor Firoun ka Waqia

 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صابر، شکر گزار، حلیم، اپنے وقت کے بہترین، برگزیدہ، خدا سے رابطہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے والے، کلمۃ اللہ کا خطاب پانے والے،  خدا کا رسول جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا۔ ۔

Hazrat Musa AS aor Firoun ka Waqia

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تقریباً 1520 قبل مسیح کا ہے۔ آپ کی پیدائش حضرت ابراہیم خلیل کے تقریباً 250 سال بعد ہوئی۔ روایات کے مطابق آپ کے والد کا نام حضرت عمران اور والدہ کا نام عیارخہ جبکہ بڑی بہن کا نام مریم تھا۔ آپ کے بھائی سیدنا ہارون علیہ السلام جو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے آپ سے چھوٹے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران بن قحیس بن آزر بن لاوی بن سیدنا حضرت یعقوب علیہ السلام بن سیدنا حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کے ذریعے آپ اپنے جد امجد سے ملے۔ سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام۔ (سیارہ ڈائجسٹ، انبیاء نمبر) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی، گھنگریالے بال، لمبا اور مضبوط جسم تھا۔ معراج کی رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی۔

 معراج کی رات جب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پچاس نمازوں کا تحفہ دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے اللہ تعالیٰ کئی بار بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوئے اور دعاؤں کی تعداد میں کمی کی۔ (بخاری و مسلم) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے واحد نبی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں تمام انبیاء سے زیادہ ہے۔ قرآن کریم کی تقریباً ہر آیت میں آپ کا ذکر آیا ہے اور آپ کا نام 36 سورتوں میں 136 مرتبہ آیا ہے۔

 فرعون اور بنی اسرائیل کا واقعہ 100 سے زائد مرتبہ آیا ہے۔ آپ کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار تین طریقوں سے آیا ہے، یعنی مختصر، درمیانی اور مفصل۔ مجموعی طور پر ہم قرآن پاک میں بیان کردہ حضرت موسیٰ (ع) کی زندگی کو پانچ ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا اس کی پیدائش سے لے کر فرعون کے محل میں اس کی پرورش تک کا دور ہے۔

 چوتھی بار کے محل میں دعوت پہنچانا وہ وقت تھا جب آپ اور آپ کے ساتھیوں کو فرعونوں سے نجات ملی اور فرعون اور اس کے حواریوں کا غرق ہو جانا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح بخاری میں حضرت سے روایت کی ایک حدیث نقل کی ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق فرماتے ہیں کہ جب انہیں موت کے فرشتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے لیے بھیجے گئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی روح قبض کی مکہ سے فرشتہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو کیونکہ ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے بدلے میں ایک سال کا اضافہ کیا جائے گا۔ کیا ہو گا؟ اسے بتایا گیا کہ اسے دوبارہ مرنا پڑے گا۔ 

راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العزت سے دعا کی کہ مجھے ارض مقدس کے اتنا قریب کر دے کہ اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ مجھ تک پہنچ جائے۔ اور آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اسی لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر سرخ پہاڑی کے نیچے دکھاتا۔ سڑک اسی طرح مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رحلت مبارک کے حوالے سے نقل ہوئی ہے۔ 

جب کہ مسند احمد میں امام احمد اور ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے اور وہ بھی آخر میں پیدا ہونے والے مسائل کا جواب دیتے ہیں جس کا خلاصہ یوں ہے: موسیٰ علیہ السلام۔ جب اس نے خدا کا پیغام پہنچایا تو اس نے اسے نہیں پہچانا کیونکہ وہ اس شکل میں آیا تھا جسے موسیٰ (علیہ السلام) نہیں پہچانتے تھے۔ 

جس طرح جبرائیل علیہ السلام کئی بار عرب کی شکل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔ اسی طرح فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں آئے اور انہیں پہچان نہ سکے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام جب انسانی شکل میں آئے تو موت کے فرشتے کو پہچاننے سے قاصر رہے اور انہوں نے مکئی حاصل کی اور آنکھیں کھولیں کیونکہ انسانی شکل والا فرشتہ ان کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوا تھا جو کہ منع تھا۔ اور اپنے قانون کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرشتے کی آنکھ کھولی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اس کی آنکھ میں مارا اور اس کی آنکھ پھاڑ دی۔ بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو میدان سے نکال کر یروشلم میں داخل ہوئے۔ لیکن یہ قول اہل کتاب اور جمہور مسلم علماء کی تحقیق کے خلاف ہے۔ 

اور اگر آپ بیت اللہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا ہرگز نہ فرماتے۔ درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے آخری ایام میں طہ کے میدان میں تھے جب موت کا وقت قریب آ رہا تھا اور انہوں نے دعا کی کہ مجھے اس مقدس گھر کے قریب پہنچا دے جس کی طرف میں ہجرت کر رہا ہوں۔ 

اس نے اپنے لوگوں کو یروشلم میں دفن کرنے پر آمادہ کیا لیکن تقدیر نے ایسا نہ ہونے دیا اور وہ پتھر پھینکنے کی مسافت سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں سرخ پہاڑ کے نیچے ان کا مقدس مزار دکھاتا۔ انبیاء کے قصوں میں وہب بن منبہ سے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رحلت مبارک سے متعلق ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرشتوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو قبریں کھودنا. اتنی خوبصورت، متحرک اور دلکش قبر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا: اے اللہ کے فرشتو تم یہ قبر کس کے لیے کھود رہے ہو؟ 

اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر آہستگی سے سانس لیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور وہ فوراً انتقال کر گئے۔ اس طرح فرشتوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے دفن کردیا۔ اہل کتاب اور دیگر سیرت نگاروں کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا تو ان کی عمر تقریباً 120 سال تھی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت کے مطابق حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا وصال ماہ رمضان المبارک کی 21ویں شب کو ہوا۔

Previous
Next Post »

Pages