پہلی قوموں میں ایک ایسا شخص تھا جس نے بہت زیادہ مال و اسباب جمع کیا تھا۔ اس کے بھی کافی بچے تھے۔ ہر قسم کی نعمتیں اس کو میسر تھیں۔ امیر ہونے کے باوجود وہ انتہائی کنجوس تھا۔ اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرے گا۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنی
دولت میں اضافہ کروں۔
جب اس کے پاس بہت زیادہ دولت جمع ہو گئی تو اس نے اپنے آپ سے کہا: "اب میں بڑی عیش و عشرت کی زندگی گزاروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ بڑی عیش و عشرت میں زندگی بسر کرنے لگا۔ بہت سے خادم ہر وقت ہاتھ باندھے اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ مقصد۔ وہ ان دنیاوی آسائشوں میں اس قدر مگن تھا کہ اپنی موت کو بالکل بھول گیا۔
ایک دن ملک الموت حضرت سید عزرائیل علیہ السلام فقیر کی صورت میں ان کے گھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ غلام فوراً دروازے کی طرف بھاگا اور دروازہ کھولتے ہی سامنے ایک فقیر پایا۔ اس نے پوچھا: تم یہاں کیوں ہو؟ ملک الموت نے جواب دیا: جاؤ، اپنے آقا کو باہر بھیج دو۔
موت کے فرشتے سے جھوٹ بولنا
نوکروں نے جھوٹ بولا اور کہا: "وہ تم جیسے غریب کی مدد کے لیے نکلے ہیں۔" تھوڑی دیر بعد وہ پھر آیا اور دروازے پر دستک دی۔ جب غلام باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جاؤ اور اپنے آقا سے کہو: میں ملک الموت (علیہ السلام) ہوں۔
جب اس امیر نے یہ سنا تو بہت خوفزدہ ہوا اور اپنے غلاموں سے کہا: جاؤ اور ان سے نرمی سے بات کرو۔
کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے نیکیوں میں خرچ نہ کرو؟ آج نہیں، لیکن آپ مزید الزام اور لعنت کے مستحق ہیں۔ ”اے ابن آدم! بے شک تم اور میں مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ پس بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نیکی کی راہ پر گامزن ہیں اور بہت سے گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ (امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" گویا مال سب کو یہ بتاتا ہے، اس لیے مال کی برائیوں سے بچو اور اسے نیک کاموں میں خرچ کرو۔
1 comments:
Click here for commentsسر ایک جگہ آپ نے حضرت عزرائیل علیہ السلام کی جگہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکھا ہے مہربانی فرما کر اسے درست کریں
ConversionConversion EmoticonEmoticon