Hazrat Ayyub AS ka Sabar aor Imtehan । حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر

 حضرت ایوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی والدہ حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا تھا۔ وہ خوبصورت زمینوں اور مال و اولاد کی کثرت، لاتعداد مویشی اور کھیتوں اور باغات وغیرہ کے مالک بھی تھے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمائش میں ڈالا تو آپ کا گھر گر گیا اور آپ کے تمام بچے اس کی زد میں آکر مر گئے اور تمام جانور بشمول سینکڑوں اونٹ۔ اور ہزاروں بکریاں مر گئیں۔ تمام کھیتیاں اور باغات تباہ ہو گئے۔ تو آپ کے پاس کچھ نہیں بچا۔

Hazrat Ayyub AS ka Sabar aor Imtehan  । حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر


جب آپ کو ان چیزوں کی تباہی کی اطلاع ملی تو آپ اللہ کی حمد و ثنا کرتے اور کہتے کہ جو میرا تھا اور جو اس کا تھا، اس نے لے لیا۔ میں اس کے ساتھ تھا جب تک اس نے مجھے دیا، جب چاہا لے لیا۔ بہرحال میں اس کی رضامندی سے متفق ہوں۔ اس کے بعد آپ بیمار ہو گئے اور آپ کے جسم مبارک پر بڑے بڑے چھالے پڑ گئے۔ اس صورت میں سب نے آپ کو چھوڑ دیا سوائے آپ کی بیوی کے جس کا نام رحمت بنت افرائیم تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی ان کی خدمت کرتی تھی۔ کئی سالوں سے آپ کا یہ حال ہے، آپ کو آبلوں اور پھوڑوں سے بہت تکلیف ہے۔


اچھے کے لیے

عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ انشاء اللہ آپ کو جذام ہو گیا ہے۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں آپ کے جذام کے بارے میں بہت سی غیر معتبر کہانیاں لکھی گئی ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ یہ تمام باتیں سراسر غلط ہیں اور آپ کو یا کسی نبی کو کبھی بھی کوڑھ اور کوڑھ کا مرض لاحق نہیں ہوا۔ تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو ان تمام بیماریوں سے بچانا چاہیے جو لوگوں کی نظروں میں نفرت اور حقارت کا باعث ہیں۔


کیونکہ انبیاء علیہم السلام کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ و رہنمائی کرتے رہیں، پھر ظاہر ہے کہ جب لوگ اپنی بیماریوں سے نفرت کریں گے اور ان سے دور بھاگیں گے تو تبلیغ کا فریضہ کیسے ادا ہو گا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو کبھی کوڑھ اور کوڑھ کی بیماری نہیں ہوئی لیکن ان کے جسم پر کچھ پھوڑے اور پھوڑے نمودار ہوئے جن سے وہ برسوں تک تکلیف میں مبتلا رہے اور برابر کے صبر و شکر کرتے رہے۔ پھر اس نے حکم الٰہی سے اپنے رب سے دعا کی:


اَنِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنۡتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِينَ (183)

ترجمہ: بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔


حضرت ایوب علیہ السلام کی کامیابی

جب آپ خدا کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور امتحان میں کامیاب ہوئے تو آپ کی دعا قبول ہوئی اور رحمٰن علیہ السلام نے حکم دیا: اے ایوب (علیہ السلام)! جب آپ نے زمین پر قدم رکھا تو ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس پانی سے نہانے کا حکم الٰہی تھا، چنانچہ جب آپ نے غسل کیا تو آپ کے جسم کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں۔ پھر جب آپ چالیس قدم چلے تو آپ کو دوبارہ زمین پر قدم رکھنے کا حکم ہوا اور جیسے ہی آپ نے قدم رکھا تو ایک اور چشمہ نمودار ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا، نہایت میٹھا اور نہایت لذیذ تھا۔


جب آپ نے وہ پانی پیا تو آپ کے اندر روشنی پیدا ہوئی۔ اور آپ کو صحت اور روشن خیالی کا اعلیٰ درجہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام بچوں کو زندہ کر دیا اور آپ کی بیوی کو جوان کر دیا اور ان کے بہت سے بچے پیدا ہو گئے، پھر آپ کے تمام گمشدہ مویشی اور آپ کو سامان و سامان بھی ملا لیکن آپ کو اس سے زیادہ رقم ملی۔ جو دولت آپ کے پاس پہلے تھی۔


تو، میں ہڑتال کرنے کی قسم کھاتا ہوں۔

ایک دن آپ نے اس بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کو بلایا وہ بہت دیر سے آئی۔ وہ غصے میں آگئی اور اسے سو بار قتل کرنے کی قسم کھائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایوب (علیہ السلام)۔ تم اپنی بیوی کو ایک بار جھاڑو سے مار دو، اس سے تمہاری قسم پوری ہو جائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآن مجید میں اس طرح بیان فرمایا ہے:


مجتل اور شراب))

ترجمہ: ہم نے کہا: زمین کو اپنے پاؤں سے مارو، یہ نہانے اور پینے کے لیے ٹھنڈا چشمہ ہے، اور ہم نے اسے اس کے اہل و عیال اور اس کے ہمسروں کو عطا کیا اور اس کو اس کی رحمت اور عقلمندوں کی نصیحت عطا کی۔ جھاڑو لے کر اسے مارو اور اپنی قسم نہ توڑو۔ یقیناً ہم نے اسے صابر پایا ہے۔ کیا وہ اچھا بندہ ہے؟


مقصد حضرت ایوب علیہ السلام اس امتحان میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں ہر طرح سے سرفراز فرمایا اور قرآن کریم میں ان کی تعریف فرما کر اور "عوبت" کے بے مثال خطاب سے ان کے مبارک سر پر فخر کا تاج رکھا۔


حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعہ سے عبرت کا سبق

حضرت ایوب (علیہ السلام) کے اس واقعاتی امتحان میں یہ ہدایت ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کا بھی امتحان ہوتا ہے اور جب وہ امتحان میں کامیاب ہو کر امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور درجات میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اتنا بڑا غرور عطا کرتا ہے کہ کوئی انسان اس کا سوچ بھی نہیں سکتا اور یہ واقعہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ آزمائش کے وقت صبر کیسے کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ اور یہ کتنا لذیذ ہے۔ اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Previous
Next Post »

Pages