حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ ہنگامہ ہائے دنیا سے الگ تھلک اپنی زندگی کے دن صبر و قناعت سے کاٹ رہے تھے۔ 31 ھ یا 32 ھ کے ایام حج میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ ربذہ کے تمام لوگ حج کےلئے روانہ ہوگئے تھے اور ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس صرف ان کی رفیقہ حیات اور ایک لڑکی موجود تھی۔ ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو ان کی اہلیہ رونے لگیں ، ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے نحیف آواز میں پوچھا۔ روتی کیوں ہو۔
اہلیہ نے جواب دیا۔ آپ ایک ویرانے میں دم توڑ رہے ہیں، نہ میرے پاس اتنا کپڑا ہے کہ آپ کو کفن دے سکوں، نہ میرے بازوﺅں میں اتنی طاقت ہے کہ آپ کی ابدی خوابگاہ تیار کرسکوں۔
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: سنو ایک دن ہم چند لوگ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ایک شخص صحرا میں جاں بحق ہوگا اور اس کے جنازے میں مسلمانوں کی ایک جماعت باہر سے آکر شرکت کرے گی۔ اُس وقت جو لوگ موجود تھے وہ سب شہری آبادیوں میں وفات پاچکے ہیں اب صرف میں ہی باقی رہ گیا ہوں۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کا مصداق نہ بنوں۔ تم باہر جاکر دیکھو، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت ضرور آتی ہوگی۔ پاس ہی ایک ٹیلہ تھا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی اہلیہ اس پر چڑھ کر انتظار کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد دور گرد اُڑتی نظر آئی۔ پھر اس میں سے چند سوار نمودار ہوئے۔ جب قریب آئے تو ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ نے انہیں پاس بلاکر کہا: بھائیو! قریب ہی ایک مسلمان سفرِ آخرت کی تیاری کررہا ہے۔ اس کے کفن دفن میں میرا ہاتھ بٹاﺅ۔ قافلے والوں نے پوچھا وہ کون شخص ہے۔ جواب دیا، ابوذرغفاری رضی اللہ تعالی عنہ ۔ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کا نام سنتے ہی قافلے والے بے تاب ہوگئے اور ہمارے ماں باپ اُن پر قربان ہوں۔ پکارتے ہوئے ان کی طرف لپکے۔
اُدھر ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی صاحبزادی سے فرمایا: جانِ پدر ایک بکری ذبح کر اور گوشت کی ہنڈیا چولہے پر چڑھادے۔ کچھ مہمان آنے والے ہیں جو میری تجہیزوتکفین کریں گے۔ جب وہ مجھے سپردِ خاک کرچکیں تو ان سے کہنا کہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ لوگوں کو خدا کی قسم دی ہے کہ جب تک آپ یہ گوشت نہ کھالیں یہاں سے رخصت نہ ہوں۔
جب قافلے والے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے خیمے میں داخل ہوئے تو ان کا دمِ واپسیں تھا۔ اکھڑی ہوئی آواز میں فرمایا: تم لوگوں کو مبارک ہوکہ تمہارے یہاں پہنچنے کی خبر سالہا سال پہلے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔ میں تمہیں وصیّت کرتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسا شخص نہ کفنائے جو حکومت کا عہدیدار ہو یا رہ چکا ہو۔ اتفاق سے اس قافلے میں ایک انصاری نوجوان کے سوا سب لوگ کسی نہ کسی صورت میں حکومت سے متعلق رہ چکے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا۔اے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب رفیق، میں آج تک حکومت کی ملازمت سے بے تعلق ہوں، میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ کے ہاتھ کے کَتے بُنے ہوئے ہیں۔ اجازت ہو تو ان میں آپ کو کفنادوں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے اثبات میں سرہلایا اور پھر بسم اللّٰہ وباللّٰہ وعلیٰ ملتہ رسُول اللّٰہ کہہ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اس قافلے کے اکثر لوگ یمن کے رہنے والے تھے۔ اتفاق سے ان کے ساتھ فقیہِ اُمت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پھر سب نے مل کر اس آفتابِ رشدو ہدایت کو سپردِ خاک کردیا۔ جب چلنے لگے تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ غفاری کی صاحبزادی نے قسم دے کر انہیں کھانا کھلایا۔
ConversionConversion EmoticonEmoticon